Meaning and Translation of التحريم in Urdu Script and Roman Urdu with Wikipedia Reference,
Urdu Meaning not found |
قرآن مجيد کي 66 ويں سورت جس کے 2 رکوع ميں 12 آيات ہيں۔ اس ميں واقعۂ تحريم کا ذکر ہے۔ == نام ==پہلي ہي آيت کے الفاظ لم تحرم سے ماخوذ ہے۔ يہ بھي اس کے مضامين کا عنوان نہيں ہے بلکہ اس نام سے مراد يہ ہے کہ يہ وہ سورت ہے جس ميں تحريم کے واقعہ کا ذکر آيا ہے۔== زمانۂ نزول ==اس ميں تحريم کے جس واقعے کا ذکر کيا گيا ہے اس کے متعلق احاديث کي روايات ميں دو خواتين کا ذکر آيا ہے جو اس وقت حضور صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے حرم ميں تھيں۔ ايک حضرت صفيہ رضي اللہ عنہا دوسري ماريہ قبطيہ رضي اللہ عنہا۔ ان ميں سے ايک، يعني حضرت صفيہ فتح خيبر کے بعد حضور صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے نکاح ميں آئيں اور خيبر کي فتح بالاتفاق 7ھ ميں ہوئي ہے۔ دوسري خاتون حضرت ماريہ کو 7ھ ميں مصر کے فرمانروا مقوقس نے حضور صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي خدمت ميں ارسال کيا تھا اور ان کے بطن سے ذي الحجہ 8ھ ميں حضور صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہيم رضي اللہ عنہ پيدا ہوئے تھے۔ ان تاريخي واقعات سے يہ بات قريب قريب متعين ہو جاتي ہے کہ اس سورت کا نزول 7ھ يا 8ھ کے دوران ميں کسي وقت ہوا ہے۔== موضوع اور مباحث ==يہ ايک بڑي اہم سورت ہے جس ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي ازواج مطہرات کے متعلق بعض واقعات کي طرف اشارہ کرتے ہوئے چند مہمات مسائل پر روشني ڈالي گئي ہے۔ ايک يہ کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود مقرر کرنے کے اختيارات قطعي طور پر اللہ تعالٰي کے ہاتھ ميں ہيں، اور عام انسان تو درکنار، خود اللہ کے نبي صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي طرف بھي ان کا کوئي حصہ منتقل نہيں کيا گيا ہے۔ نبي بحيثيت نبي اگر کسي چيز کو حرام يا حلال قرار دے سکتا ہے تو وہ صرف اس صورت ميں جبکہ اللہ تعالٰي کي طرف سے اس کا اشارہ ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ اشارہ قرآن مجيد ميں نازل ہوا ہو، يا وحي خفي کے طور پر کيا گيا ہو۔ ليکن بطورِ خود اللہ کي مباح کي ہوئي کسي چيز کو حرام کر لينے کا مجاز نبي بھي نہيں ہے کجا کہ کوئي اور شخص ہو سکے۔ دوسرے يہ کہ انساني معاشرے ميں نبي کا مقام انتہائي نازک مقام ہے۔ ايک معمولي بات بھي، جو کسي دوسرے انسان کي زندگي ميں پيش آئے چنداں اہميت نہيں رکھتي، نبي کي زندگي ميں اگر پيش آ جائے تو وہ قانون کي حيثيت اختيار کر جاتي ہے۔ اس ليے اللہ تعالٰي کي طرف سے انبياء عليہم السلام کي زندگي پر ايسي کڑي نگراني رکھي گئي ہے کہ ان کا کوئي ادنٰي اقدام بھي منشاء الٰہي سے ہٹا ہوا نہ ہو۔ ايسا کوئي فعل بھي اگر نبي سے صادر ہوا ہے تو اس کي فوراً اصلاح کر دي گئي ہے تاکہ اسلامي قانون اور اس کے اصول اپني بالکل صحيح صورت ميں نہ صرف خدا کي کتاب، بلکہ نبي کے اسوۂ حسنہ کي صورت ميں بھي خدا کے بندوں تک پہنچ جائيں اور ان ميں ذرہ برابر بھي کوئي چيز ايسي شامل نہ ہونے پائے جو منشاء الٰہي سے مطابقت نہ رکھتي ہو۔تيسري بات جو مذکورۂ بالا نکتہ سے خود بخود نکلتي ہے وہ يہ ہے کہ ايک ذرا سي بات پر جب نبي صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کو ٹوک ديا گيا اور نہ صرف اس کي اصلاح کي گئي بلکہ اسے ريکارڈ پر بھي لے آيا گيا، تو يہ چيز قطعي طور پر ہمارے دل ميں يہ اطمينان پيدا کر ديتي ہے کہ حضور صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي حيات طيبہ ميں جو اعمال و افعال اور جو احکام و ہدايات بھي ہميں اب ملتے ہيں، اور جن پر اللہ تعالٰي کي طرف سے کوئي گرفت يا اصلاح ريکارڈ پر موجود نہيں ہے، وہ سراسر برحق ہيں، اللہ کي مرضي سے پوري مطابقت رکھتے ہيں اور ہم پورے اعتماد کے ساتھ ان سے ہدايت و رہنمائي حاصل کر سکتے ہيں۔چوتھي بات جو اس کلام ميں ہمارے سامنے آتي ہے وہ يہ ہے کہ جس رسول مقدس کي عزت و حرمت کو اللہ تعالٰي خود اپنے بندوں کے حق ميں لازمۂ ايمان قرار ديتا ہے اسي کے متعلق اس سورت ميں بيان کيا گيا ہے کہ اس نے اپني بيويوں کو خوش کرنے کے ليے ايک مرتبہ اللہ کي حلال کي ہوئي ايک چيز اپنے اوپر حرام کر لي۔ اور جن ازواج مطہرات کو اللہ تعالٰي خود تمام اہل ايمان کي ماں قرار ديتا ہے اور جن کے احترام کا اس نے خود مسلمانوں کو حکم ديا ہے انہي کو اس نے بعض غلطيوں پر اس سورت ميں شدت سے تنبيہ فرمائي ہے۔ پھر نبي پر يہ گرفت اور ازواج مطہرات کو يہ تنبيہ بھي خفيہ طور پر نہيں کي گئي بلکہ اس کتاب ميں درج کر دي گئي جسے تمام امت کو ہميشہ ہميشہ تلاوت کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ کتاب اللہ ميں اس کا ذکر کا منشا يہ نہ تھا، نہ يہ ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالٰي اپنے رسول اور امہات المومنين کو اہل ايمان کي نگاہوں سے گرا دينا چاہتا تھا اور يہ بھي ظاہر ہے کہ قرآن پاک کي يہ سورت پڑھ کر کسي مسلمان کے دل سے ان کا احترام اٹھ نہيں گيا ہے۔ اب قرآن ميں يہ ذکر لانے کي مصلحت اس کے سوا اور کيا ہو سکتي ہے کہ اللہ تعالٰي اہل ايمان کو اپنے بزرگوں کے احترام کي صحيح حدوں سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔ نبي، نبي ہے، خدا نہيں ہے کہ اس سے کوئي لغزش نہ ہو۔ نبي کا احترام اس بنا پر نہيں ہے کہ اس سے لغزش کا صدور ممکن نہيں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ وہ مرضي الٰہي کا مکمل نمائندہ ہے اور اس کي ادنٰي سي لغزش کو بھي اللہ نے اصلاح کيے بغير نہيں چھوڑا ہے جس سے ہميں يہ اطمينان نصيب ہو جاتا ہے کہ نبي کا چھوڑا ہوا اسوۂ حسنہ اللہ کي مرضي کي پوري نمائندگي کر رہا ہے۔ اسي طرح صحابۂ کرام يا ازواجِ مطہرات، يہ سب انسان تھے، فرشتے يا فوق البشر نہ تھے۔ ان سے غلطيوں کا صدور ہو سکتا تھا۔ ان کو جو مرتبہ حاصل ہوا اس وجہ سے ہوا کہ اللہ کي رہنمائي اور اللہ کے رسول کي تربيت نے ان کو انسانيت کا بہترين نمونہ بنا ديا تھا۔ ان کا جو کچھ بھي احترام ہے اسي بنا پر ہے، نہ کہ اس مفروضے پر کہ وہ کچھ ايسي ہستياں تھيں جو غلطيوں سے بالکل مبرا تھيں۔ اسي وجہ سے نبي صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے عہد مبارک ميں صحابہ يا ازواج مطہرات سے بشريت کي بنا پر جب بھي کسي غلطي کا صدور ہوا اس پر ٹوکا گيا۔ ان کي بعض غلطيوں کي اصلاح حضور صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے کي جس کا ذکر احاديث ميں بکثرت مقامات پر آيا ہے۔ اور بعض غلطيوں کا ذکر قرآن مجيد ميں کر کے اللہ تعالٰي نے خود ان کي اصلاح کي تاکہ مسلمان کبھي بزرگوں کے احترام کا کوئي ايسا مبالغہ آميز تصور نہ قائم کر ليں جو انہيں انسانيت کے مقام سے اٹھا کر ديويوں اور ديوتاؤں کے مقام پر پہنچا دے۔ قرآن پاک کا مطالعہ آنکھيں کھول کر کيا جائے تو اس کي پے در پے مثاليں سامنے آئيں گي۔ سورۂ آل عمران ميں جنگ احد کا ذکر کرتے ہوئے صحابۂ کرام کو مخاطب کرکے فرمايا: |
Read more at wikipedia |